Showing posts with label article in urdu. Show all posts
Showing posts with label article in urdu. Show all posts

Wednesday 3 August 2016

Hazrat Amir khusru Or Shaikh Saadi Ki Rubai

حضرت امیر خسرو رحمته الله علیه نے ایک بار بہت خوبصورت نعتیه رباعی لکھی اور حضرت نظام الدین اولیاء رحمته الله علیه کی خدمت میں پیش کی .
حضرت نے رباعی سن کر فرمایا " خسرو ! رباعی خوب هے لیکن
سعدی رحمة الله عليه کی جو رباعی هے بلغ العلے بکماله ، اسکا جواب نہیں "
اگلے دن حضرت امیر خسرو رحمة الله عليه نے پہلے سے زیادہ محنت سے مزید اچھی رباعی لکھی اور پیرو مرشد کو سنائی تو انھوں نے سن کر پھر فرمایا که خسرو رباعی خوب هے لیکن سعدی کی رباعی کا جواب نہیں . حضرت امیر خسرو رحمة الله عليه نے کئی بار محنت کی لیکن پیرو مرشد هر بار یہی فرماتے که خسرو ! رباعی خوب هے لیکن سعدی رحمة الله عليه کی رباعی کا جواب نہیں . آخر ایک دن حضرت امیر خسرو رحمة الله عليه نے عرض کی " سیدی ! سعدی رحمة الله عليه نے بھی نعتیه رباعی لکھی اور میں بھی کئی دن سے نعت لکھ کر پیش کر رها هوں لیکن آپ هر بار یہی فرماتے هیں که سعدی رحمة الله عليه کی رباعی کا جواب نہیں، ایسا کیوں هے ؟

پیرو مرشد نے فرمایا : اچھا ، جاننا چاهتے هو تو آج آدھی رات کے وقت آنا .

چنانچہ امیر خسرو رحمة الله عليه آدھی رات کے وقت حاضر خدمت هوئے تو مرشد کو وظائف میں مشغول پایا . فرمایا ، " خسرو ! ادھر آؤ ، میرے پاس بیٹھو اور دیکھو"
مرشد کی توجه هوئی اور حضرت امیر خسرو رحمة الله عليه نے دیکھا که دربار رسالت صلی الله علیه وآله وسلم آراستہ هے صحابه کرام اور هزاروں اولیاء کرام موجود هیں . شیخ سعدی رحمة الله عليه دربار میں موجود هیں اور پڑھ رهے هیں ،

بلغ العلے بکماله ،
کشف الدجا بجماله
حسنت جمیع خصاله
صلوا علیہ و آلہ

اور نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم فرما رهے هیں ، سعدی ! پھر پڑھو ،
سعدی رحمة الله عليه کہتے هیں لبیک یا سیدی ! اور پھر رباعی پڑهنے لگتے هیں ، رباعی ختم هوتی هے اور نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم فرماتے هیں، سعدی ! پھر پڑھو اور سعدی پھر پڑھنے لگتے هیں .
یه دیکھ کر امیر خسرو رحمة الله عليه نے عرض کیا ، پیرو مرشد ! لکھتا تو میں بھی خوب هوں لیکن سعدی کی رباعی کا جواب نہیں.

اور واقعی اس رباعی کا جواب نہیں. کہتے هیں جب حضرت سعدی نے یہ رباعی لکھی تو تین مصرعے لکھ لئے ،

بلغ العلے بکماله
کشف الدجا بجماله
حسنت جمیع خصاله

لیکن چوتھا مصرع موزوں نہیں هو رها تها اسی پریشانی میں سو گئے تو خواب میں نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم کی زیارت کی اور دیکھا کہ سرکار صلی الله علیه وآله وسلم فرما رهے هیں، سعدی کہتے کیوں نہیں :

صلوا علیه وآله

تب سے یه رباعی زبان زد عام هے اور آج بھی اس کی مقبولیت میں فرق
نہیں آیا.

بلغ العلے بکماله ،
کشف الدجا بجماله
حسنت جمیع خصاله
صلوا علیه وآله.

Monday 1 August 2016

Betiyon ko nasihat in Urdu

عرب کی ایک مشہور عالمہ ،ادیبہ کی آپنی بیٹی کو دس نصیحتیں،
1
''میر ی پیاری بیٹی ،میری آنکھو ں کی ٹھنڈک ،شوہر کے گھر جا کر قناعت والی زندگی گزارنے کا اہتمام کرنا۔ جو دال روٹی ملے اس پر راضی رہنا ، جو روکھی سوکھی شوہر کی خو شی کے ساتھ مل جا ئے وہ اس مر غ پلاﺅ سے بہتر ہے جو تمہارے اصرار کرنے پر اس نے ناراضگی سے دیا ہو ۔
2
میری پیاری بیٹی ، اس بات کا خیال رکھنا کہ اپنے شوہر کی بات کو ہمیشہ توجہ سے سننا اور اسکو اہمیت دینا اور ہر حال میں ان کی بات پر عمل کرنے کی کو شش کرنا اسطرح تم ان کے دل میں جگہ بنا لو گی کیو نکہ اصل آدمی نہیں آدمی کا کام پیارا ہو تا ہے ۔
3
میری پیاری بیٹی اپنی زینت و جمال کا ایسا خیال رکھنا کہ جب وہ تجھے نگاہ بھر کے دیکھے تو اپنے انتخاب پر خوش ہو اور سادگی کے ساتھ جتنی بھی استطاعت ہو خوشبو کا اہتمام ضرور کرنا اور یا د رکھنا کہ تیرے جسم ولباس کی کوئی بو یا کوئی بری ہیت اسے نفرت و کرا ہت نہ دلائے
4
میری پیاری بیٹی اپنی شوہر کی نگاہ میں بھلی معلوم ہونے کے لیے اپنی آنکھوں کو سرمے اور کاجل سے حسن دیناکیونکہ پرکشش آنکھیں پورے وجو د کو دیکھنے والے کی نگاہوں میں جچا دیتی ہیں ۔ غسل اور وضو کا اہتمام کرنا کہ یہ سب سے اچھی خوشبو ہے اور لطافت کا بہترین ذریعہ ہے ۔
5
میری پیاری بیٹی ان کا کھانا وقت سے پہلے ہی اہتمام سے تیار رکھنا کیونکہ دیر تک برداشت کی جانی والی بھوک بھڑکتے ہوئے شعلے کی مانند ہو جاتی ہے اور ان کے آرام کرنے اور نیند پوری کرنے کے اوقات میں سکون کا ماحول بناناکیونکہ نیند ادھوری رہ جائے تو طبیعت میں غصہ اور چڑچڑاپن پیدا ہو جا تا ہے ۔
6
میری پیاری بیٹی ان کے گھر اور انکے مال کی نگرانی یعنی ان کے بغیر اجازت کوئی گھر میں نہ آئے اور ان کا مال لغویات ، نما ئش و فیشن میں بر باد نہ کرناکیونکہ مال کی بہتر نگہداشت حسن انتظام سے ہو تی ہے اور اہل عیال کی بہتر حفاظت حسن تدبر سے ۔
7
میری پیاری بیٹی ان کی راز دار رہنا ،ان کی نا فرمانی نہ کرنا کیونکہ ان جیسے بارعب شخص کی نافرمانی جلتی پر تیل کا کام کریگی اور تم اگر اسکا راز دوسروں سے چھپا کر نہ رکھ سکیں تو اسکا اعتماد تم پر سے ہٹ جا ئیگا اور پھر تم بھی اسکے دو رخے پن سے محفوظ نہیں رہ سکو گی ۔
8
میری پیاری بیٹی جب وہ کسی با ت پر غمگین ہوں تو اپنی کسی خوشی کا اظہار ان کے سامنے نہ کرنا یعنی ان کے غم میں برابر کی شریک رہنا۔ شوہر کی کسی خوشی کے وقت غم کے اثرات چہرے پر نہ لا نا اورنہ ہی شوہر سے ان کے کسی رویے کی شکایت کرنا ۔ ان کی خوشی میں خوش رہنا۔ورنہ تم ان کے قلب کے مکدر کرنے والی شمار ہو گی۔
9
میری پیاری بیٹی اگر تم ان کی نگاہوں میں قابل تکریم بننا چاہتی ہو تو اس کی عزت اور احترام کا خوب خیال رکھنا اور اسکی مرضیات کے مطابق چلنا تو اس کو بھی ہمیشہ ہمیشہ اپنی زندگی کے ہر ہر مرحلے میں اپنا بہترین رفیق پاﺅ گی۔
10
میر ی پیاری بیٹی میر ی اس نصیحت کو پلو سے باند ھ لو اور اس پر گرہ لگا لو کہ جب تک تم ان کی خو شی اور مرضی کی خاطر کئی بار اپنا دل نہیں ما رو گی اور انکی بات اوپر رکھنے کے لیے خواہ تمہیں پسندہو یا ناپسند،زندگی کے کئی مر حلوں میں اپنے دل میں اٹھنے والی خواہشو ں کو دفن نہیں کر و گی اس وقت تک تمہاری زندگی میں بھی خو شیو ں کے پھو ل نہیں کھلیں گے ۔
اے میری پیاری اور لا ڈلی بیٹی ان نصیحتو ں کے ساتھ میں تمہیں اللہ کے حوالہ کرتی ہوں اللہ تعالیٰ زندگی کے تمام مرحلوں میں تمہارے لیے خیر مقدر فرمائے اور ہر بر ائی سے تم کو بچائے '

Tuesday 7 July 2015

Sahaba e kiram

ایک دن امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی' عنہ کھانا کھا رہے تھے کھانے کے بعد آپ کا دل کسی میٹھی چیز کھانے کو چاہا.. آپ نے اپنی زوجہ صاحبہ سے پوچھا.. " کیا کوئی میٹھی چیز نہیں ہے..? " انہوں نے جواب دیا.. "بیت المال سے جو راشن آتا ہے اس میں میٹھی کوئی چیز نہیں ہوتی.."آپ سن کر چپ ہو گئے..چند دن بعد آپ رضی اللہ تعالی' عنہ نے دیکھا کہ دسترخوان پر کھانے کے ساتھ حلوہ بھی موجود ہے.. آپ نے اپنی زوجہ صاحبہ سے فرمایا.. " تم نے تو کہا تھا کہ ہمارے راشن میں میٹھی کوئی چیز نہیں آتی تو پھر آج یہ حلوہ کیسے بن گیا..? "آپ کی زوجہ محترمہ نے جواب میں فرمایا.. " میں نے جو اس دن محسوس کیا کہ آپ کو میٹھی چیز کی خواھش ھے تو میں نے یوں کیا کہ راشن میں جتنا آٹا روزانہ آتا تھا اس میں سے مٹھی بھر آٹا الگ رکھتی تھی.. آج اتنا آٹا جمع ھو گیا کہ اس کے بدلے میں نے بازار سے کجھور کا شیرہ منگوایا اور اس طرح یہ حلوہ تیار کیا.. "آپ نے حلوہ تناول فرمایا اور زوجہ صاحبہ کا شکریہ ادا کیا.. کھانے کے بعد آپ رضی اللہ تعالی' عنہ سیدھے بیت المال کے مہتمم کے پاس پہنچے اور فرمایا.." ھمارے ھاں راشن میں جس قدر آٹا جاتا ھے آج سے اس میں سے ایک مٹھی کم کردینا.. کیونکہ ھفتہ بھر کے تجربے نے بتایا ھے کہ ھمارا گزارہ مٹھی بھر کم آٹے میں بھی ھو جاتا ھے.. "از : حیات الصحابہ..

Tuesday 24 March 2015

nabi ki pasandidah giza in urdu

Image result for jau ki roti




نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ غذائیں


سرکہ اور جو کی روٹی:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سرکہ اور جو کی روٹی بہت پسند تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ان دونوں کا استعمال فرماتے۔ گوشت کدو اور جو کی روٹی کو پسند فرماتے اور بڑی رغبت سے تناول فرماتے۔
زیتون اور اس کا تیل:
حضرت ابو رشید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم زیتون کا پھل کھاؤ اور اس کا تیل استعمال کرو کیونکہ یہ بابرکت درخت ہے۔
ثرید:
ثرید اس کھانے کو کہا جاتا ہے جو شوربے یا پتلی دال میں بھگو کر تیار کیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب ترین کھانا ثرید تھا۔
کدو:
کدو ایک سبزی ہے جو ذائقہ میں لذیذ اور تاثیر میں‌ زود ہضم ، صحت بخش اور دماغی صلاحیتوں کو بڑھانے والا ہے۔ کدو مفرح قلب، جگر اور اعصاب کے لیے مفید سبزی ہے۔ کدو ہمارے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ پسند تھا۔ پسندیدگی کا یہ عالم تھا کہ گوشت اور کدو کے سالن سے کدو کے قتلے اٹھا اٹھا کر پہلے کھاتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک درزی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے پر بلایا ، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔صاحب خانہ نے جو کی روٹی اور شوربہ پیش کیا۔ شوربہ میں کدو گوشت تھا۔ پس میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کدو کے ٹکڑے اٹھا اٹھا کر نکالتے تھے۔ اس دن سے میں بھی کدو کو پسند کرنے لگا۔
شہد:
شہد کے بارے میں‌ یہ بات طے شدہ ہے کہ یہ بہت سے امراض میں مفید ہے۔ اور اس کا استعمال جسم کو امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ تمام تر کاوشوں کے باوجود اب تک شہد کا متبادل تلاش نہیں کیا جا سکا۔ شہد کی ایک خوبی اس کے رس کا جلد اثر کرنا اور قدرتی انٹی بایوٹک (Anti Biotic) ہونا ہے۔ یہ حلق سے نیچے اترتے ہی خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ نوزائیدہ بچے سے لے کر جاں بلب مریض تک سب کے لئے غذا اور دوا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد بہت پسند تھا۔ اور اس کا بہت استعمال فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہد پسند فرماتےتھے۔ شہد کی شفا بخشی کا ذکر قرآن میں‌بھی آیا ہے اور اسے موت کے علاوہ ہر مرض کا علاج قرار دیا گیا ہے۔
دودھ:
دودھ حضرت انسان کے لیے ایک مکمل غذا ہے اور اس سے بہتر غذا شاید ہی ہو۔ دودھ میں‌ جسم کی ضرورت کے مطابق تمام اجزا موجود ہیں جن سے جسم صحت مند رہ سکتا ہے اور اس کی نشونما صحیح ہو سکتی ہے۔ جن علاقوں کے لوگ دودھ استعمال کرتے ہیں ان کی عمریں زیادہ ہوتی ہیں۔ اللہ کے فرستادہ پیغمبروں‌کی یہ پسندیدہ غذا رہی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ بہت پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر گائے اور بکری کا دودھ استعمال فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کوئی چیز ایسی نہیں جو طعام اور مشروب دونوں کا کام دیتی ہو، سوائے دودھ کے۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم لوگ گائے کے دودھ کو اپنے لئے لازم قرار دے دو، کیونکہ یہ شفا بخش ہے اور اس کا گھی دوا ہے۔
کھجور:
کھجور ایک مقوی غذا ہے۔ سب پھلوں میں سے زیادہ توانائی بخش ہے۔ جسم انسانی کو جس قدر حیاتین کی ضرورت ہوتی ہے اسی قدر کھجور میں‌ہے۔ کھجور جسم کو فربہ کرتی ہے۔ صالح خون پیدا کرتی ہے۔ سینہ اور پھیپھڑوں کو قوت بخشنے کے لیے اس سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔ کھجور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مرغوب غذا رہی ہے۔ قرآن مجید میں بھی کھجور کا ذکر آیا ہے۔ کھجور کی ایک قسم عجوہ ہے جو مدینہ منورہ میں‌ ہوتی ہے۔ یہ امراض‌ قلب میں‌ مفید ہے۔ عجوہ کھجور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھی۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو شخص روزانہ صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لیا کرے اسے اس دن زہر اور جادو سے کوئی نقصان نہیں‌پہنچا سکتا۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے: عجوہ جنت کا پھل ہے۔ اس میں زہر سے شفا دینے کی تاثیر ہے۔
حضرت عطیہ رضی اللہ عنہا اور عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مکھن اور کھجوریں پیش کیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پسند فرماتے تھے۔
گوشت:
گوشت جسم انسانی کی صحت و توانائی کے لئے بہت مفید قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں‌ جسم کی طاقت و توانائی کے لئے اہم اجزا ہوتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حلال جانوروں کا گوشت بہت شوق سے کھاتے تھے۔ بلکہ گوشت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرغوب غذا تھی۔ مرغ کا گوشت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسند فرماتے۔ حضرت ابو الدرداء سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا و جنت دونوں جگہ سب کھانوں کا سردار گوشت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گوشت دنیا و آخرت میں بہترین سالن ہے اور گوشت تمام کھانوں کا سردار ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی شخص کے ہاں کھانے پر گیا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بکرے کا بازو بھوننے کا حکم دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں‌ سے کاٹ کاٹ کر مجھے دینے لگے۔

AK MAA KI NASIHAT IN URDU

ایک عرب ماں کی دس نصیحتیں
میر ی پیا ری بیٹی ،میری آنکھو ں کی ٹھنڈک ،شوہر کے گھر جا کر قناعت والی زندگی گزارنے کا اہتمام کرنا۔ جو دال روٹی ملے اس پر راضی رہنا ،
جو روکھی سوکھی شو ہر کی خو شی کے ساتھ مل جا ئے وہ اس مر غ پلا ؤ سے بہتر ہے جو تمہارے اصرار کرنے پر اس نے نا راضگی سے دیاہو ۔ میری پیا ری بیٹی ، اس با ت کا خیال رکھنا کہ اپنے شو ہر کی با ت کو ہمیشہ تو جہ سے سننا اور اس کو اہمیت دینا اور ہر حال میں ان کی بات پر عمل
کرنے کی کو شش کرنا اس طر ح تم ان کے دل میں جگہ بنا لو گی کیو نکہ اصل آدمی نہیں آدمی کا کام پیارا ہو تا ہے ۔
میری پیا ری بیٹی اپنی زینت و جمال کا ایسا خیال رکھنا کہ جب وہ تجھے نگاہ بھر کے دیکھے تو اپنے انتخاب پر خو ش ہو اور سادگی کے ساتھ جتنی استطاعت ہو خوشبو کا اہتمام ضرور کرنا اور ہاں تیرے جسم ولباس کی کوئی بو یا کوئی بری ہیت اسے نفر ت و کرا ہت نہ دلائے ۔
میری پیا ری بیٹی اپنی شو ہر کی نگاہ میں بھلی معلوم ہو نے کے لیے اپنی آنکھو ں کو سرمے اور کا جل سے حسن دیناکیونکہ پر کشش آنکھیں پورے وجو د کو دیکھنے والے کی نگا ہوں میں جچا دیتی ہیں ۔غسل اور وضو کا اہتمام کرنا کہ یہ سب سے اچھی خوشبو ہے اور لطافت کا بہترین ذریعہ ہے ۔
میری پیا ری بیٹی ان کا کھا نا وقت سے پہلے ہی اہتمام سے تیا ر رکھنا کیو نکہ دیر تک برداشت کی جانی والی بھوک بھڑکتے ہوئے شعلے کی مانند ہو جاتی ہے اور ان کے آرام کرنے اور نیند پو ری کرنے کے اوقات میں سکون کا ما حول بناناکیونکہ نیند ادھوری رہ جائے تو طبیعت میں غصہ اور چڑچڑاپن پیدا ہو جا تا ہے ۔
میری پیا ری بیٹی ان کے گھر اور ان کے مال کی نگرانی یعنی ان کے بغیر اجازت کوئی گھر میں نہ آئے اور ان کا مال لغویات ، نما ئش و فیشن میں بر باد نہ کرناکیونکہ مال کی بہتر نگہداشت حسن انتظام سے ہو تی ہے اور اہل عیال کی بہتر حفاظت حسن تدبر سے ۔
میری پیا ری بیٹی ان کی را ز دار رہنا ،ان کی نا فرمانی نہ کرنا کیونکہ ان جیسے بارعب شخص کی نا فرمانی جلتی پر تیل کا کام کرےگی اور تم اگر اس کا رازدوسروں سے چھپا کر نہ رکھ سکیں تو اس کا اعتما د تم پر سے ہٹ جا ئےگا اور پھر تم بھی اس کے دو رخے پن سے محفوظ نہیں رہ سکو گی ۔
میری پیا ری بیٹی جب وہ کسی با ت پر غمگین ہو ں تو اپنی کسی خوشی کا اظہار ان کے سامنے نہ کرنا یعنی ان کے غم میں برابر کی شریک رہنا۔ شو ہر کی کسی خو شی کے وقت غم کے اثرات چہرے پر نہ لا نا اورنہ ہی شو ہر سے ان کے کسی رویے کی شکایت کر نا ۔ ان کی خو شی میں خو ش رہنا۔ور نہ تم ان کے قلب کے مکدر کرنے والی شما ر ہو گی۔
میری پیا ری بیٹی اگر تم ان کی نگا ہوں میں قابل تکریم بننا چاہتی ہو تو اس کی عزت اور احترام کا خوب خیال رکھنا اور اس کی مر ضیا ت کے مطابق چلنا تو اس کو بھی ہمیشہ ہمیشہ اپنی زندگی کے ہر ہر مرحلے میں اپنا بہترین رفیق پاؤ گی۔
میر ی پیا ری بیٹی میر ی اس نصیحت کو پلو سے باند ھ لو اور اس پر گرہ لگا لو کہ جب تک تم ان کی خو شی اور مرضی کی خاطر کئی بار اپنا دل نہیں ما رو گی اور ان کی بات اوپر رکھنے کے لیے خواہ تمہیں پسندہو یا ناپسند،زندگی کے کئی مر حلوں میں اپنے دل میں اٹھنے والی خواہشوں کو دفن نہیں کر و گی اس وقت تک تمہاری زندگی میں بھی خو شیو ں کے پھو ل نہیں کھلیں گے ۔۔اے میری پیا ری اور لا ڈلی بیٹی ان نصیحتو ں کے ساتھ میں تمہیں اللہ کے حوالہ کرتی ہو ں اللہ تعالیٰ زندگی کے تمام مرحلوں میں تمہارے لیے خیر مقدر فرمائے اور ہر بر ائی سے تم کو بچائے۔

Wednesday 4 February 2015

Sheikh Abdul Qadir Jilani Ke Mukhtasir Haalaat in urdu

Image result for ghouse azam



غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی
رضی اللہ تعالی عنہ کے مختصر حالات

سلسلہ نسب و ولادت:قطب الاقطاب فرد الاحباب استاذ شیوخ ، عالمِ اسلام و المسلمین حضرت محی الدین ابو محمد عبدالقادر الحسنی و الحسینی رضی اللہ عنہ، نجیب الطرفین ہیں۔ والدہ ماجدہ کی طرف سے حسینی اور والد ماجد کی جانب سے حسنی تھے۔ یہ شرافت و بزرگی بہت ہی کم بانصیب لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ والد ماجد کا نام سید ابو صالح اور والدہ ماجدہ کا اسم گرامی ام الخیر فاطمہ بنت ابو عبداللہ صومعی الحسینی تھا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ آپ ایران کے مشہور قصبہ جیل میں یکم رمضان المبارک ٤٧٠ھ کو پیدا ہوئے۔


آپ مادر زاد ولی تھے:
یہ بات نہایت ہی مشہور و معروف ہے کہ سیدنا حضرت غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، ایام رضاعت میں ماہِ رمضان المبارک میں دن کے وقت اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ نہیں پیا کرتے تھے۔ یہ بات لوگوں میں پھیل گئی کہ فلاں شریف گھرانے میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان شریف میں دن کے وقت ماں کا دودھ نہیں پیتا۔ اور روزہ سے رہتا ہے۔؛ اس سے ثابت ہوا کہ آپ مادر زاد ولی تھے ۔

ایک دفعہ لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ آپ ولی اللہ ہیں؟ فرمایا میں دس برس کا تھا کہ گھر سے مدرسے جاتے وقت دیکھا کہ فرشتے میرے ساتھ چل رہے ہیں۔ پھر مدرسہ میں پہنچنے کے بعد وہ فرشتے دوسرے بچوں سے کہتے کہ ''ولی اللہ '' کیلئے جگہ دو ، فرماتے ہیں کہ ایک دن مجھے ایک ایسا شخص نظر آیا جسے میںنے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اس نے ایک فرشتہ سے پوچھا کہ یہ کون لڑکا ہے ؟ جس کی اتنی عزت کرتے ہو؟ اس فرشتہ نے جواب دیا کہ یہ ولی اللہ ہے جو بڑے مرتبے کا مالک ہوگا۔ راہِ طریقت میں یہ وہ شخصیت ہے جسے بغیر روک ٹوک کے نعمتیں دی جارہی ہیں اور بغیر کسی حجاب کے تمکین و قرار عنایت ہو رہا ہے ۔ اور بغیر کسی حجت کے تقربِ الٰہی مل رہا ہے۔ الغرض چالیس سال کی عمر میں میں نے پہچان لیا کہ وہ پوچھنے والا شخص اپنے وقت کا ابدال تھا۔
آپ کا حلیہ شریف:
آپ نحیف البدن ، میانہ قد، کشادہ سینہ لمبی چوڑی داڑھی، گندمی رنگ، ابرو پیوستہ، بلند آواز تھے۔ آپ علم کامل اور اثر کامل کے حامل تھے۔

آپ کا علم و فضل:

سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، علم ظاہری اور باطنی کے ایک متبحر عالم فاضل تھے۔ ایک دن آپ کی مجلس میں ایک قاری نے قرآن کریم کی ایک آیت تلاوت کی۔ آپ نے اس کی تفسیر بیان کرنی شروع کی ۔ پہلے ایک تفسیر پھر دوسری، اور پھر تیسری یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق اس آیک کی گیارہ تفاسیر بیان فرمائیں۔یہاں تک کہ چالیس وجوہ بیان کیں ار ہر معنی اور تفسیر کی علیحدہ علیحدہ تفصیل سے سند اور دلیل اس طرح دی کہ حاضرین دم بخود رہ گئے۔

تمام علمائے عراق بلکہ دنیا کے تمام طلب گارانِ حال و قال کے آپ مرجع و وسیلہ تھے۔ دنیا کے ہر گوشہ سے آپ کے پاس فتوے آیا کرتے تھے جن پر فوراً بغیر مطالعہ کتب اور غور و فکر جواب لکھتے ۔ کسی بڑے سے بڑے حاذق فاضل عالم کو آپ کے جواب کے خلاف لکھنے یا کہنے کی طاقت نہ تھی۔
آپ کی ریاضت و عبادت:
سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، کا طریقہئ سلوب بے انتہاء مشکل اور بے نظیر تھا۔ آپ کے کسی ہمعصر شیخ میں اتنی مجال نہ تھی کہ آپ جیسی ریاضت و مجاہدہ میں آپ کی ہمسری کرسکے۔ آپ کا قاعدہ تھا کہ اپنے ہر عضو کو اس کی طاقت کے موافق عبادت میں سپرد کردیا کرتے تھے۔ اور قوتِ قلب کے موافق مجایئ اقداء میں روح و نفس کا ظاہراً و باطناً ذکر کیا کرتے تھے ۔ غائب و حاضر دونوں حالتوں میں نفس کی صفات کو علیحدہ کرکے نفع و نقصان اور دور ونزدیک کا فرق مٹادیا کرتے ۔ کتاب و سنت کی پیروی میں مطابقت ایسی تھی کہ آپ ہر حالت میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے اور حضور قلب کے ساتھ توحید الٰہی میں مشغول رہتے۔
 
آپ کے اخلاقِ کریمہ:

سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، نہایت پاکیزہ اور خوش اخلاق تھے۔ آپ اپنی طاہری شان و شوکت اور وسیع علم کے بوجود کمزوروں اور ضعیفوں میں بیٹھتے ۔ فقیروں سے عاجزی کے ساتھ پیش آتے ۔ بڑوں کی عزت کرے اور چھوٹوں پر شفقت و مہربانی فرماتے ۔ سلام کرنے میں پہل کرتے اور مہمانوں اور طالب علموں کی مجلسوں میں نشست کرتے اور ان کی لغزشوں سے درگزر کرتے جو کوئی آپ کے سامنے کتنی ہی جھوتی قسم کیوں نہ کھاتا آپ اس کا یقین کرلیتے اور اپنے علم و کشف کو اس پر ظاہر نہ فرماتے۔ اپنے مہمانوں اور ہم نشستوں کے ساتھ دوسروں کی بہ نسبت بہت خوش خلقی اور کشادہ روئی سے پیش آتے ۔ سرکشوں ۔ ظالموں ۔ مال داروں اور فاسقوں اور اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کی تعظیم کے لئے کھڑے نہ ہوتے۔ کسی امیر و وزیر کے گھر نہ جاتے ۔ آپ کے کسی ہم عصر مشائخ کو آپ جیسا حسن خلق ۔ کشادہ سینہ ، کرمِ نفس حفاظت و امانت میں برابری کی قوت و طاقت نہ تھی۔
آپ کی مریدوں پر شفقت:
مشائخین کی ایک جماعت کا بیان ہے کہ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ، نے فرمایا کہ قیامت تک میں اپنے تمام مریدوں کا ضامن ہوں کہ ان کی موت توبہ پر واقع ہوگی۔ یعنی بغیر توبہ نہ مریں گے۔ چند مشائخ نے حضور سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص آپ کے ہاتھ پر بیعت نہ کرے اور نہ ہی آپ کے ہاتھ سے خرقہ پہنا ہو ، بلکہ صرف آپ کا ارادتمند ہو اور آپ کی طرف اپنے کو منسوب کرتا ہو تو کیا اسیے شخص کو آپ کے اصحاب میں شمار کیا جاسکتا ہے؟ اور آیا ایسا شخص ان فضیلتوں میں شریک ہوگا جو آپ کے مریدوں کو حاصل ہوگی؟ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ، نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے آپ کو میری طرف منسوب کیا اور مجھ سے ارادت و عقیدت رکھی تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرے گا۔ اس پر اپنی رحمتیں نازل کرے گا اور اس کو توبہ کی توفیق دے گا اگرچہ اس کے طریق مکروہ ہوں۔ اور ایسے شخص کا شمار میرے مریدوں اور اصحاب میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم کے صدقہ وعدہ کیا ہے کہ میرے دوستوں ، میرے اہلِ مذہب، میرے راہ پر چلنے والے ،میرے مریدوں ار مجھ سے محبت کرنے والے کو جنت مرحمت فرمائے گا۔

آپ کے تعلیم کردہ نوافل:

آپ رضی اللہ عنہ، فرماتے ہیں کہ جو کسی تکہلیف میںمجھ سے امداد چاہے یا مجھے آواز دے اور پکارے اس کی تکلیف دور کی جائے گی ، جو کوئی میرے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے مانگے اس کی ضرورت پوری کی جائے گی۔ اور جو کوئی دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہئ فاتحہ کے بعد گیارہ مرتبہ سورہئ اخلاص پڑھے اور پھر سرور عالم ا پر درود شریف پڑھے اس طرح دونوں رکعتیں ختم کرکے سلام پھیرنے کے بعد درود شریف پڑھے ۔ اور عراق کی جانب گیارہ قدم چلے اور میرا نام لے کر اپنی مراد اللہ تعالیٰ سے مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کی مراد اپنے فضل و کرم سے پوری کرے گا۔
عداوت غوث کا انجام:
جو شخص حضرت پیر دستگیر غوث اعظم رضی اللہ عنہ، سے تھوڑی سی بھی عداوت رکھے گا یا ان کی ادنیٰ سی بھی بے ادبی کرے گا تو دنیا میں ذلیل و رسوا ہوگا۔ اور ذلت کی موت مرے گا۔

ایک مرتبہ آپ کا خادم ابو الفضل بزاز کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے وہ کپڑا درکار ہے جو ایک اشرفی فی گز ہو کم نہ ہو۔

بزاز نے پوچھا ، کس کے لئے خریدتے ہو؟

خادم نے جواب دیا کہ اپنے آقا سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، کیلئے درکار ہے۔

یہ سن کربزاز کے دل میں آیا کہ شیخ نے بادشاہ وقت کے لئے بھی کپڑا نہیں چھوڑا۔ اور بزاز کے دل میں ابھی یہ خیال پورا ہی نہیں ہوا تھا کہ غیب سے اس کے پاؤں میں ایک کیل چبھی ار ایسی چبھی کہ مرنے کے قریب ہو گیا۔ لوگوں نے پاؤں سے کیل نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن مطلب براری نہ ہوسکی۔ آخر کار لوگ بزاز کو اٹھا کر حضرت غوثِ پاک رضی اللہ عنہ، کے پاس لے گئے۔ آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا،

''اے ابو الفضل! تم نے اپنے دل میں ہم پر اعتراض کیوں کیا ۔ فرمایا مجھے اپنے معبود کی عزت کی قسم کہ اللہ جل شانہ، نے حکم دیا کہ اے عبدالقادر وہ کپڑا پہنو جس کی قیمت فی گز ایک اشرفی ہو''

مزید فرمایا کہ ابو الفضل! یہ کپڑا میت کا کفن ہے ۔ اور میت کا کفن عمدہ اور نفیس ہونا چاہئے جو ہزار موت کے بعد نسیب ہوتا ہے۔ پھر آپ نے اپنا دست اقدس ابوالفضل کی تکلیف کے مقام پر رکھا ۔ آپ کے ہاتھ رکھتے ہی تکلیف اس طرح جاتی رہی گویا بالکل تھی ہی نہیں ۔ پھر اس کے بعد فرمایا ۔ ابو الفض کا اعتراض ہمارے پاس پہنچا اور کیل کی صورت میں اسکے پاس لوٹ کر جو کچھ چاہا کیا۔


حضرت غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، کا وعظ و نصیحت:
آپ کی مجلس وعظ میں چار سو اشخاص قلم دوات لئے آپ کی نصیحتیں قلمبند کرتے رہتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ابتدائی زمانہ میں سرورِ عالم ا اور سیدنا حضرت مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کو میں نے خواب میں دیکھا جنہوں نے مجھے وعظ کرنے کا حکم دیا اور میرے منہ میں اپنا لعاب دہن ٹپکایا اور مجھ پر ابواب سخن کھول دیے۔

حاضرینِ وعظ:

ایک شیخ کا بیان ہے کہ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ، جب وعظ کرنے کیلئے منبر پر بیٹھتے تو پہلے الحمد اللہ کہتے تاکہ اللہ تعالیٰ کا ہر ولی جو غائب ہو یا حاضر خاموش ہوجائے۔ اور پھر دوسری مرتبہ الحمد للہ کہتے اور دونوں کے درمیان تھوڑی دیر کیلئے سکوت فرماتے اس عرصہ میں فرشتے اور تمام اولیاء اللہ آپ کی مجلس میں حاضر ہوجاتے ۔ جتنے لوگ آپ کی مجلس میں دکھائی دیتے اس سے زیادہ نظر نہ آنے والے جنات ہوتے۔

آپ کے ہم عصر ایک شیخ کا بیان ہے کہ میںنے اپنی عادت کے موافق جنات کی حاضری کے لئے عزیمت پڑھی لیکن کوئی جن حاضر نہ ہوا ۔ میں بہت دیر تک عزیمت پڑھتا رہا ۔ پھر حیران ہوا کہ جنات کی حاضری کیوں نہیں ہورہی ہے؟ ان کے نہ آنے کا سبب کیا ہے؟ تھوڑی دیر بعد کچھ جن حاضر ہوئے تو میں نے ان سے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، وعظ فرمارہے تھے ار ہم سب جنات وہاں حاضر تھے۔ آپ آئیندہ ہم کو اس وقت طلب کریں جب کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، وعظ نہ فرمارہے ہوں ورنہ ہماری حاضری میں تاخیر ہوگی۔ میں نے پوچھا کیاتم لوگ حضرت شیخ کی مجلس میں وعظ مں حاضر ہوتے ہو؟ اس پر جنات نے نے جواب دیا کہ شیخ کی مجلس میں انسانوں کی نسبت ہماری تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہم جنات سے اکثر قبائل حضرت شیخ کے ہاتھ پر اسلام لائے ہیں اور توبہ و استغفار میںمشغول ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ، کی مجلس وعظ میں اولیائے عظام اور انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام بھی شریک ہوتے ہیں ار خود محبوب رب العالمین ا بھی تربیت و تائید کیلئے تشریف لایا کرتے تھے۔ اور سیدنا حضرت خضر علیہ السلام بھی شریک ہوتے۔

مواعظ کا اثر:

آپ کا وعظ بڑا پر تاثیر ہوتا تھا۔ حاضرین مجلس مضطرب اور بے چین ہوجاتے اور ان پر وجد و حال کی کیفیت طاری ہو جاتی ۔ کوئی گریہ و فریاد کرتا۔ کوئی اپنے کپڑے پھاڑ کر جنگل کی طرف بھاگ جاتا۔ کوئی بے ہوش ہو کر جان دے دیتا ۔ آپ کی مجلس وعظ سے اکثر لوگوں کے جنازے نکلتے۔ جس کا سبب یہ تھا کہ وہ آپ کے ذوق و شوق، ہیبت و تصرف ، عظمت و جلال کی تاب نہ لاسکتے اور دم توڑ دیتے تھے۔ پانچ سو سے زیادہ یہودی اور عیسائی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اور ایک لاکھ سے زیادہ ڈاکوؤں اور بدمعاشوں نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کرکے بدکرداریوں سے باز آئے۔ اس کے علاوہ عام مخلوق کی فیض یابی کی تعداد بے انتہا ار بے شمار ہے۔

آپ کا وصال مبارک:

آپ نے نوے (٩٠) سال کی عمر میں بتاریخ ١١ ربیع الآخر ٥٦١ھ مطابق ١١٨٢ء میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ نماز جنازہ میں بے شمار لوگ حاضر ہوئے۔ کثرتِ ہجوم کے باعث رات کے وقت آپ کے مدرسہ میں سائبان کے نیچے آپ کا جسم اقدس سپردِ خاک کیا گیا۔ بغداد شریف میں آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے۔
 

Pehli muharram ka asardar wazifa rozi me barkat ka

https://www.nabwi.com/imam-hussain-karbala-story-in-hindi-urdu-1/ imam husain https://www.nabwi.com/islamic-hadees-in-hindi-new-post-40/